بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
بِن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا میری نیند بھی تمھاری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتطاری ہے
ایک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تیری سواری ہے
خوش رہے تُو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امیدواری ہے
جون ایلیاء
No comments:
Post a Comment